گُمشدہ بلوچوں کے نام
زہیربلوچ
بہت دن ہوگئے لیکن
میرے بابا نہیں لوٹے
میری امّاں کی پیشانی کی سلوٹ
اورگہری ہوتی جاتی ہے
میرے دادا کی وہ بے نورآنکھیں
اب بھی دروازے کی چوکھٹ تکتی رہتی ہیں
میری چھوٹی بہن ہرآدھے گھنٹے بعد ماں سے آکے کہتی ہے
”منی ابّا کدی کیت اِنت“
مجھے معلوم ہے بابا نہ لوٹیں گے
مگرہربار خود کو خودفریبی سے تسلّی دیتا رہتا ہوں
کوئی دوسال پہلے رات کے گاڑھے اندھیرے میں
ہمارے گھر کے دروازے کو اُن وحشی درندوں نے لتھاڑا تھا
میرے بابا جوگہری نیند میں سوئے ہوئے تھے ان کو بسترسے گھسیٹا تھا
بہت مارا تھا لاتوں اور گھونسوں سے
میرے بابا کی پیشانی پرAk-47کے بہت سے بَٹ بھی مارے تھے
میرے بابا کی پیشانی نے کتنا خون اُگلا تھا
وہ تب سے لاپتہ ہیں
گاﺅں کے سب لوگ کہتے ہیں
میرے بابا اُسی شب اُن درندوں کی کسی گولی کا لقمہ بن گئے ہوں گے
مگرحیرت ہے تو اس بات پہ ہے کہ
چٹائی پر جمے بابا کی پیشانی سے اُبلے خون کا دھبہ
میں جب بھی چُھوکے دیکھوں تو
میرے ہاتھوں کی پوروں پہ وہ سرخی چھوڑ جاتی ہے
٭