. حُسن کی روحُ
سیما سردارزئی کے نام
غنی پھوال
بینائ وہ نہیں
جو دکھا سکے
جبر کی جبلت میں
قید کسی حیوان کی طرح
حُسن منظر میں کہاں؟
دلفریب نظارے
رنگینیاں پھولوں کی
دل آویز حُسن
سب سورج دیوتاکی دَیا سے ہے
وردان ہے بس ان کرنوں کی
ورنہ کورے کاغذ کی
طرح سے سب کچھ بے معنی
ھمنواؤں!
ہو سکے تو کبھی
کسی منظر کی جا کر
روح کی گہرائ میں اُترو
جہاں تم مظہر کی
احساس کی خوشبو کو
سُونگھ سکو، چُھو سکو
اور دیکھ سکو کہ کیسے
حُسن کی روح
کسی جبرئیل کی طرح
لازوال وسعتوں کی
بےکراں بائیں پھیلا کر
اپنی ابدی چاہتوں کی
آغوش میں
سمیٹ لے گی تم کو
تب قدرت کھیلے گی ھولی
رنگ و نُور کی حقیقی چشمے
پُھوٹ کرپھیلیں گے ہرسُو
اور تُمھارے اندر کے
کورے کینوس پر
حُسن کی دیوی کی روحُ
ایک شاہکار رُوپ دھار لے گی
جو ھر دل کی گیلری میں
آویزاں ھوگی ھمیشہ کیلئے