نمکین شہر
شہر میں
ہر جانب نمکین ہوائیں چلتی ہیں
نمکین اور سرد ہوائیں
ملّاح سیانے پھرتے ہیں
مونچھوں کو تاؤ دے کر
کشتیوں کے سُکّان پکڑ کر تھپتھپاتے ہیں
جیسے کوئی کسی کُشتی باز
کا پیٹھ تھپتھپائے
اور سمندر کے دنگل میں بھیجے
دنیا داری سے دو دو ہاتھ نبھا کرنے
شہر میں ہر جانب نمکین ہوائیں چلتی ہیں
نمکین اور سرد ہوائیں
ہم نمکین شہر میں رہتے ہیں
اور نمک کے بیوپاری ہیں
بڑے بوڑھے کہتے ہیں
یہاں صدیوں پہلے، سمندر کے راستے
پرتگیز سے حسین عورتیں آئی تھیں
پُرکشش ملبوسات زیب تن کیے ہوئے
اپنے خوبصورت ہاتھوں میں پرتگالی سوگات لیے ہوئے
ہم نے ان کا استقبال کیا تھا
ان کے آنے کی سحر زدہ خوشی میں
جھوم اٹھے تھے
عمر رسیدہ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ
جاتے جاتے ان دوشیزاؤں نے
سمندری پرندوں کو دیکھ کر کچھ پڑھا تھا
اور ہم پر پھونک دیا تھا
تب سے لیکر اب تک نمکین ہے ہر شے
نمکین شہر ہے
آنسو، احساس، ہنسی، خوشی اور غم نمکین
کردار نمک کے ڈلے ہیں
پگھلائیں
بھی تو صرف نمک رہ جاتا ہے
چہروں پہ نمک، لفظوں میں نمک، ہاتھوں میں نمک، آنکھوں میں نمک
شہر میں
ہر جانب نمکین ہوائیں چلتی ہیں
نمکین اور سرد ہوائیں!! "
زائد رئیس