بشکریہ : جان دشتی
بلوچی زبان اور ادب: ایک جائزہ
تحریر وتحقیق: رحیم بخش آزاد
مبارک ہیں وہ راوی، موسیقار و ڈوم فنکار جنہوں نے انتہائی احتیاط و محبت سے بلوچی کلاسیکی شاعری کو حفظ کیا اور شاعری کے اس ذخیرے کو مسلسل آئندہ نسلوں تک منتقل کیا۔ جس سے بلوچوں کو علوم و فنون کے قدیم دفینوں کی وسیع تر آگاہیاں ملیں۔ ابتدائی قبائلی دور کے اس صاحب فن دانشوروں اور شاعر حضرات نے بلوچی زبان و بلوچوں کی تاریخ کو ہزار ہا سال سے قائم رکھ کر بلوچوں پر عظیم احسان کئے۔رزمیہ، بزمیہ، و عشقیہ شاعری انہی عظیم فنکاروں کی مرہون منت ہے۔ فصاحت و بلاغت انہی کی قوت فکر و نظر اور ذہنی فراست کی مظہر و پروردہ رہی ہے یہ پوری قدیم شاعری سادہ، پر جوش اور حقیقت پر مبنی ہے۔ انہوں نے ایسی مناظر کشی کی ہے جیسے وہ خود میدان جنگ میں موجود ہیں لڑائیوں مین شامل ہین اور حملہ کے وقت سب سے آگے ہین اور کمنٹری کرتے جارہے ہین عشقیہ شاعری مین ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعر خود کسی محبوبہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ موتک یا مرثیہ میں ایسے الفاظ لائے جیسے ان کا اپنا دوست یا عزیز فوت ہوگیا ہے۔ بلاشبہ یہ عوام کی شاعری ہے ان میں عوام کے دلوں کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔آج بھی عوام اپنی شبینہ محفلوں میں ان نغموں کو الاپتے ہیں تو وہ مسرت و روحانی فرحت و قلبی تسکین سے سرشار ہوجاتے ہیں۔ا ن اشعار میں آج بھی عوام کے دلوں کے تار چھیڑنے کی صلاحیت ہے۔ ان کا ہر مسرعہ چونکہ شاعر کے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ہے اس لئے اب بھی دل پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ صدیاں گزرجانے کے باوجود چاکرو گہرام، شے مرید وحانی، حمل و ماہ گنج و بالاچ گور گیج وغیرہ کی نظمیں بلوچوں کے جذبات کی ترجمانی ہیں۔ بدقسمتی سے کالونیل تسلط اور خارجی اثرات کے باعث یہ روایتی سلسلہ معدوم ہوتا گیا۔ تاہم پچھلی صدی تک بلوچی شعر گوئی کی روایات اتنی وسیع تھیں کہ صرف ڈیرہ غازی خان اور متصل علاقے میں ایم لانگ ورتھ ڈیمس نے بلوچی اشعار کے ایک اچھے خاصے ذخیرہ کو جمع کر کے اپنی کتاب”پاپولر پونٹری آف دی بلوچیز“ میں چھاپ دیا اور دوسری جلد میں اس کا انگریزی ترجمہ حواشی کے ساتھ دے دیا اس طرح لالہ ہیتھورام نے بلوچستان کے قبائل کی تاریخ اور ”بلوچی نامہ“ میں بلوچی دپتہ(نسب نامہ) کے کچھ اشعار چھاپ دیئے۔ لیکن یہ بہت ہی قلیل ذخیرہ تھا کہ جو دائرہ تحریر مین لایا گیا ۔ بعد ازاں بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے کچھ گوہر قیمتی یکجا کر کے چھاپ دیئے لیکن اس سے کئی گان زیادہ اشعار جو بلوچ ذہین رادیوں اور فنکار ڈوموں اور فنکار موسیقاروں کو یاد ہیں۔ بے وسیلہ غریب بلوچ ان کو ضابطہ تحریر میں لانے کے لئے اس جدید دور مین بھی قاصر ہے۔ عام بلوچوں کی بڑی تعداد خشک بلند پہاڑوںاور چٹیل وسیع میدانوں کی سرزمین میں آباد ہے۔ جو ترقی پزیر اور پسماندہ ہے جہاں انسان روٹی اور روزی کے مسئلہ میں کچھ ایسا بے سدھ اور الجھا ہوا ہے کہ آسمان کی اور پر جگمگاتی شفق کو بھی وہ نظر بھر کر نہیں دیکھ پاتا۔ فطرت کی سرشاری اور انسانی زندگی کی سرمستیوں مین عام آدمی کا حصہ کم ہو کر رہ گیا ہے۔ قبائلی نظام کی جکڑ بندیوں کے محور پر گھومنے والے معاشرے کے غریب باسیوں کو ان کے آقاو ¿ں کے کاسریسوں نے بھوک اور مفلسی کو اپنی فلسفہ طرازی سے محترم اور مستحسن بنانے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردی ہین تاکہ عام آدمی فن سانس کی طرح زندگی کے ساتھ ہے، وہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کی عکاسی بھی کرتا ہے اور اس کو نئے موڑ بھی دیتا ہے تشخیص مرض بھی کرتا جاتا ہے اور مسیحائی بھی کرتا رہتا ہے۔ فن انسان کو نظر بھی بخشا ہے اور تخیل کا مجرم ، تصور کی دل کشی کا عارف اور نکات کا رمز آشنا بھی بناتا ہے۔ خانہ بدوشوں، شتر بانوں، دہقانوں اور چرواہوں کو نغموں سے فطری لگاو ¿ ہے ان کو بند اور محصور معاشروں کا باسی بنا کر ان کی فکر و نظر کو نغموں کی آزادیوں اور آسودگیوں سے کسی نہ کسی بہانے محروم رکھنے کی مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے کوششیں کیں اور فن کی کیف زائی کو فلسفہ طرازیوں کے ذریعے مسخ کرکے سرشاری کو عذاب میں لطف کو کرب میں تبدیل کرنے کی سعی لاحاصل کی۔ لیکن بلوچ بچوں کو سلانے، کپڑے سینے، چکی چلانے، بچے کی پیدائش پر، کسی کی یاد مین، کھیتوں میں، اونٹوں کے داروان میں، ریگستانوں کے سفر میں چروا ہے پہاڑوں کے دامن میں ، شادی میں گیت الاپتے رہے وہی صدیوں پرانے روایتی گیت جو قدیم و جدید شعراءنے انسانی بقاءکی راہ مین، سماجی ناہمواری، نا انصافی و غلامی کے سنگ گراں کو دور کرنے کے جہاد مین مصروف اپنے ہیروو ¿ں کی یاد مین رقم کئے تھے۔
ہر ہیرو ہو وہ فنکار جس کے پاس جذبہ بے اختیار تھا یہ جذبہ انہوں نے آویزش و کشمکش سے پیدا کیا اور اس کو بڑی مہارت و تکنیک سے مو ثر پیرائے سے نظموں میں ڈھالا جن میں پس منظر بھی ہے اور منظر کشی بھی تعیم اور رموز بھی جو کالو تیل اور قبائلی جبر کے بانجھ پن کے خلاف احتجاج بھی کرتے اور اس فرسودہ نظام کی بے چہرگی کا اظہار بھی کرتے، داخلی و خارجی واردات و معاملات کا حسن توازن و آہنگ بھی ہے۔ اور امن و آزادی ، انسان دوستی کے نغمے بھی جنہیں شعراءنے زندان کی اداس شام میں، محبت دلبراں میں یا محفل اہل جنون میں دلنوازی سے ترتیب دیئے جہاں انہوں نے رجائیت کے نئے باب کھولے۔ ظلمت کدوں میں دم توڑتی خواہشات ان کے جلومیں نئے جزبوں سے ہمکنار ہوئیں یہ شعراءجدوجہد کے ایسے پیامبر ہیں جنہوں نے امید و عرض تمنا کا دروازہ کبھی بند نہ کیا ہر کوئے جفا مین ان کی جہد مسلسل کی داستان دہرائی جاتی رہے گی۔ ان شعراءکا خیال نغمہ وشعر میں ڈھلا اور فکر ادب و جن کو نئے قالب عطا کر گیا ان شعراءکا رنگ اور خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے وسیع چراطاہ مین جب بارش کا موسم ہوتا ہے اور دشت و بیاباں وادیاں لالہ زار بن جاتی ہیں تو شعراءکا سگند بھینی بھینی سی ٹھری ہوئی اپنی تمام گھمبیر تا سے آہستہ آہستہ دلوں مین اترتی ہوئی آنکھوں میں نئے منظروں کو جنم دیتی ہے بارود کی مکدر فضاءہو یا زندان کی بیزار کن رات ان شعراءکے سخن ہر جگہ نئے چاند اتارتے ہیں۔
۔